LightBlog

Search This Blog

Blog Archive

Powered by Blogger.

بلاگر حلقہ احباب

آمدو رفت

Top News

Recent

Follow Us

About Me

no image

ناول : وقت کی شطرنج
تحریر : منہل نواز
قسط نمبر : 20
ان دونوں کو لاؤنج میں باتیں کرتا چھوڑ کر شہریار نے   پورچ کی جانب قدم بڑھائے۔ ایک اچٹتی نگاہ زارون پر ڈال کر اس نے ہاتھ میں پکڑے سن گلاسس آنکھوں پر لگا لیے۔ چند منٹوں کی مسافت کے بعد وہ گارڈز کے سامنے کھڑا تھا۔ تمام حاضرین اسے دیکھ کر چوکنے ہوگئے تھے۔ اگر کہیں بھی ڈیل ڈول نظر آتا تو جھاڑ پونچھ ممکنہ تھی۔
"گاڑی تیار ہے؟" کوٹ کندھے پر لٹکاتے ہوئے اس نے رفیق سے سوال کیا۔
_____________
"یس سر! آپ آجائیے۔"  عون نے ادب سے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا اور شہریار کے بیٹھنے کے بعد گارڈز کو ضروری ہدایات دے کر ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگیا۔
_____________
گاڑی رفتہ رفتہ فاصلہ طے کررہی تھی۔ شہریار کی نظریں ہنوز کھڑکی سے باہر کے مناظر کو جانچ رہی تھیں۔ اسکا دماغ اگلے لائحہ عمل کو سرانجام دینے کی تراکیب سوچنے میں جتا ہوا تھا۔ "عون.!"  اس نے ایک سرد نگاہ عون کے سراپے پر ڈالی جو ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا۔
"سر آپ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے۔"  وہ آہستگی سے بولا۔ شاید شہریار کا لہجہ عون کو اس کے خراب موڈ کا بتا چکا تھا۔
"میرے ذہن میں ایک چیز کلئیر نہیں ہے۔"
"اور وہ کیا ہے؟"  صبح ہونے والی بارش کی وجہ سے سڑک پر تھوڑا بہت پانی موجود تھا۔
"زرتاشہ کو وہ انجیکشن تم نے لگایا تھا رائٹ؟" وہ سر کھجاتا ہوا بولا۔
"رائٹ سر۔" عون اسکی بات کا مدعا سمجھ چکا تھا۔
"عون جب تم نے اسے انجیکشن لگایا تب وہ پورے ہوش و حواس میں تھی۔ کیا وہ ایکٹ کررہی ہے؟ یا وہ واقعی ہماری گیم سے بےخبر ہے؟" شہریار نے گھڑی پر نگاہ دوڑائی۔ اسکا ذہن بہت پھرتی سے جمع تفریق کر رہا تھا۔
"سر۔ اول تو میں بھی اس بات کو لے کر تذبذب کا شکارہوں۔ مگرجہاں تک میرا خیال ہے انہوں نے شاید پریشانی میں مجھے نہیں پہچانا۔" عون کے چہرے پر الجھن کے آثار تھے۔"عون۔۔۔! مجھے کسی قسم کا کوئی بھی ڈرامہ نہیں چاہیے۔ زرتاشہ کوئی بچی نہیں ہے۔ ہم نے اسے بہت لائٹ لے لیا ہے۔ آج کی پریس کانفرنس میں مجھے اپنی شادی کا بھی انتظام کرلینا چاہیے۔" اس کے چہرے پر سوچ کی لکیریں چھائی ہوئی تھیں۔
چند منٹ بعد عون نے گاڑی  شہر کے ایک نامی گرامی ہوٹل کے سامنے روکی ۔ شہریار کی گاڑی کے رکنے پر گارڈز بھی جیپ سے نکل آئے تھے۔  نیوز رپورٹرز کو اس کے آنے کی اطلاع پہلے ہی دی جاچکی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ وقت سے پہلے ہی ادھر موجود تھے۔
________________
دس منٹ بعد وہ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ مائیکس کے سیٹ کے سامنے بیٹھا تھا۔ اطراف میں گارڈز پھیلے ہوئے تھے۔ پریس کانفرنس کا انتظام ہوٹل بیسمینٹ میں موجود  ایک وسیع  ہال میں کیا گیا۔ پارٹی کے تقسیم ہوجانے کے بعد ممبران کی ایک بڑی تعداد شہریار کی حمایت  میں کھڑی تھی اور اسکی بھی ایک وجہ تھی کیونکہ وہاں موجود سب لوگ ہی احمد اقبال کی اصلیت سے باخبر تھے۔
ہال میں موجود کھڑکیوں کو ڈبل گلاس سے بدل دیا گیا تھا  اور  پہلے کی نسبت اس بار سیکیورٹی کیمراز میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ تمام رپورٹرز اب اپنے تابڑتوڑ سوالات کا دورانیہ شروع کرچکے تھے۔
"سر کل جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد اقتدار میں موجود پارٹی اب دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ احمد اقبال کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ یہ سب سراسر الزام ہے۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟"
"اس بات کا فیصلہ کورٹ ہی بہتر کرسکتا ہے۔ میں بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ اس بار ہمارے پاس ٹھوس ثبوت ہیں جنہیں ہم وقت آنے پر استعمال کریں گے۔" اسکا لہجہ چہرے کے تاثرات کی مانند سرد تھا۔
"سر ان حالات میں پیدا ہونے والی کشیدگی آپ کی فیملی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کیا آپ نے کوئی حفاظتی قدم اٹھایا؟"
"موت برحق ہے۔ انسان اگر سات پعدوں میں بھی چھپ جائے تب بھی موت سے نظریں نہیں چرا سکتا لہٰذا میں نے کوئی بھی حفاظتی قدم نہیں کیا۔ ہاں البتہ اگر میری فیملی میں سے کوئی وقت سے پہلے ہی مالکِ حقیقی سے جاملا تو سمجھ جائیے گا کہ یہ حرکت کس کی ہے۔ باقی مارنے والے سے زیادہ بڑی ذات بچانے والے کی ہے۔"
 "سر اس کے علاوہ آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟" دو گھنٹوں کی پریس کانفرنس اب اختتامی مراحل پر پہنچ رہی تھی۔ شہریار نے کافی سوچ بچار کے بعد لب کھولے اور ٹی وی سکرین کے سامنے براجمان احمد اقبال کے چہرے پر نفرت کی پرچھائیاں چھا گئیں۔ ایک طرف پارٹی کے دیگر ممبران بیٹھے تھے جنہوں نے پارٹی کے تقسیم ہونے کے بعد احمد اقبال کا ساتھ دیا تھا۔
________________
"ضرور۔ ایک بہت ہی اہم بات کہنا چاہوں گا۔ میں اگلے ہفتے شادی کررہا ہوں۔ اب اس خبر کو بھی وائرل کردیں۔" بات کے اختتام میں وہ ہلکا سا مسکرایا اور گارڈز جو پہلے ڈے ہی چوکس تھے انکی تائیدی میں ہوٹل لابی سے باہر چلا گیا۔  


Facebook